نکاح ایک مقدس رشتہ ہے۔ جو مرد اور عورت کے درمیان محبت، احترام اور باہمی تعاون پر مبنی ہوتا ہے۔ لیکن بعض اوقات حالات ایسے پیدا ہو جاتے ہیں کہ میاں بیوی کے درمیان نباہ ممکن نہیں رہتا۔ ان حالات میں اسلام نے طلاق کے علاوہ ایک اور راستہ "خلع” کا بھی رکھا ہے۔ مرد اگر طلاق دینے سے انکار کرے یا عورت خود علیحدگی اختیار کرنا چاہے۔ تو اسے خلع کا حق حاصل ہے۔ یعنی اگر وہ شوہر کے ساتھ زندگی گزارنے پر راضی نہیں ہے تو شوہر سے علیحدگی حاصل کر سکے۔ اس بلاگ میں ہم خلع کی تعریف، اس کا طریقہ، شرائط اور احکام پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔ 

خلع کی تعریف

لفظ "خلع” عربی زبان سے ماخوذ ہے۔ جس کے معنی "اتارنا” یا "علیحدگی حاصل کرنا کے ہیں۔” شرعی اصطلاح میں خلع کسے کہتے ہیں؟ خلع کی تعریف دیکھی جائے تو چونکہ خلع میں عورت مرد کے رشتہ زوجیت سے باہر آجاتی ہے۔ اس لیے شرعاً خلع کا مفہوم ہے، مِلکِ نکاح سے دست بردار ہونا۔ 

شریعت میں خلع اس صورت میں ہوتی ہے جب بیوی کسی معقول وجہ سے شوہر سے علیحدگی اختیار کرنا چاہے۔ اور بدلے میں مہر یا کوئی اور مالی معاوضہ واپس کرے۔ خلع کا تصور اسلامی قانون میں اس لیے موجود ہے تاکہ اگر ازدواجی زندگی دونوں کے لیے ناقابل برداشت ہو جائے تو عورت کے پاس بھی طلاق لینے کا اختیار ہو۔ خلع میں شوہر کے حقوق کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔ تاکہ انصاف پر مبنی فیصلہ ہو۔ 

خلع کی تعریف اور ذکر قرآن میں واضح طور پر موجود ہے۔ سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ 

اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ وہ دونوں (میاں بیوی) اللہ کی حدود پر قائم نہیں رہیں گے، تو ان دونوں پر کچھ گناہ نہیں اگر عورت کچھ معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کر لے۔ (البقرہ: 229) 

یہ آیت خلع کی تعریف کے ساتھ اس کے جواز کو واضح کرتی ہے۔ کہ اگر عورت ازدواجی زندگی جاری نہیں رکھ سکتی تو اسے اپنے حقوق کے بدلے علیحدگی کا اختیار حاصل ہے۔ 

خلع کا فلسفہ کیا ہے؟ 

جس طرح مرد کے اختیار میں طلاق ہے۔ اسی طرح عورت کو خلع کا اختیار دیا گیا ہے۔ اگر عورت کو مرد کی طرف سے کوئی تکلیف ہو تو اس کے اختیار میں خلع ہے۔ اور اگر مرد کو عورت کی طرف سے تکلیف ہو تو شارع نے اسے طلاق کا اختیار دیا ہے۔ 

خلع عام حالات میں مکروہ ہے۔ اور صرف اس حالت میں جائز ہے جب شوہر اور بیوی میں سے کسی ایک کو یہ خطرہ ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے۔ اور اس سے مرد اور عورت کے درمیان حسنِ معاشرت ناپسندیدہ ہوگی۔ یا مرد کی صورت عورت کے نزدیک ناپسندیدہ ہو۔ اس کے اخلاق عورت کے نزدیک ناپسندیدہ ہوں۔ 

شادی ایک ایسا مقدس رشتہ ہے۔ جس میں دونوں فریقین کو ایک دوسرے کے ساتھ محبت، عزت اور احترام کے ساتھ زندگی گزارنے کی ذمہ داری دی جاتی ہے۔ تاہم، معاشرتی ناہمواری  کے باعث بہت سی عورتیں اپنی زندگی کو تلخیوں سے بچانے کے لیے خلع کا راستہ اختیار کرتی ہیں۔ خلع کی تعریف جان لینے کے بعد دیکھتے ہیں کہ وہ کون سی وجوہات یا حالات ہیں جن میں خلع لی جا سکتی ہے۔  

جب شوہر بیوی کو جسمانی یا ذہنی اذیت دے رہا ہو، تو عورت اپنی تکلیف سے نجات پانے کے لیے خلع لے سکتی ہے۔

اگر ازدواجی تعلقات میں ایسی مشکلات ہوں جو یک طرفہ ہوں۔ اور بیوی کی اصلاح کی کوئی امید نہ ہو۔ تو عورت عدالت سے خلع کی درخواست کر سکتی ہے۔

شوہر کی جانب سے مسلسل بدسلوکی، زیادتی یا بے وفائی ہو، تو بیوی کو خلع کا حق ملتا ہے تاکہ وہ اس اذیت سے بچ سکے۔

اگر شوہر اپنی بیوی کا نان و نفقہ فراہم کرنے میں ناکام ہو۔ اور اس سے زندگی گزارنا ممکن نہ ہو، تو عورت خلع کے ذریعے اپنی آزادی حاصل کر سکتی ہے 

جب شوہر کا دینی یا اخلاقی کردار بیوی کے لیے ناقابل برداشت ہو اور بیوی اپنی زندگی میں سکون و اطمینان چاہتی ہو، تو وہ عدالت سے خلع کی درخواست کر سکتی ہے 

اگر عورت کو کم جہیز لانے پر طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جائے۔ تو وہ مجبور ہو کر بذریعہ عدالت حقِ خلع اِستعمال کرسکتی ہے 

 شوہر کو اگر گھر سے غاءب ہوئے چار سال کا عرصہ گزر جائے۔ اور اس کے بارے میں کسی کو علم ہو، نہ ہی عورت سے کوئی رابطہ ہو، توایسی صورت میں خاتون خلع لے سکتی ہے۔ 

اگر شوہر ذہنی توازن کھو بیٹھے اور بحالی کی کوئی امید نہ رہے، تو ایسی صورت میں عورت خلع لے سکتی ہے۔ 

کم عمری میں والدین یا سرپرست کی جانب سے کی گئی شادی کو لڑکی بالغ ہوتے ہی اپنی مرضی سے ختم کرسکتی ہے۔ 

 شوہر اگر خود بری عورتوں سے میل میلاپ رکھے۔ اور بیوی کو غیر اخلاقی زندگی گذارنے پر مجبور کر دے۔ یا مذہب پر عمل کرنے سے رو کے۔ تو ایسی صورت میں عورت عدالت سے خلع لے سکتی ہے 

خلع کی شرائط  

۱- شوہر اور بیوی دونوں عاقل و بالغ ہوں۔ 

۲- بیوی اپنی آزاد مرضی سے خلع طلب کرے، کسی دباؤ کے تحت نہ ہو۔ 

۳- خلع کسی معقول وجہ کی بنا پر لی جائے۔ جیسے ذہنی اذیت، شوہر کی نافرمانی، یا ازدواجی تعلقات میں مسائل، وغیرہ 

۴- بیوی خلع کے بدلے میں شوہر کو مالی حق (مہر یا دیگر مال) واپس کرے۔ جب تک کہ شوہر ظالم ثابت نہ ہو۔ 

۵۔ خلع صحیح ہونے کے لیے شوہر کا اسے قبول کرنا ضروری ہے۔ 

۶- اسلامی عدالت یا باہمی رضامندی سے خلع کا فیصلہ ہو۔ 

خلع کا طریقہ 

اسلامی فقہ میں خلع کے لیے ایک مخصوص طریقہ کار ہے۔ جو درج ذیل نکات پر مشتمل ہے۔ 

بیوی کی طرف سے درخواست 

خلع کے لیے بیوی کو قاضی یا شرعی عدالت میں درخواست دینی ہوتی ہے۔ اگر شوہر راضی ہو تو وہ خود بھی خلع دے سکتا ہے۔ 

وجہ کا بیان 

بیوی کو کوئی معقول وجہ بیان کرنی ہوگی۔ جیسے بدسلوکی، مالی عدم استحکام، ناچاقی یا ازدواجی زندگی میں شدید مشکلات۔ 

مہر یا مالی معاوضہ

خلع کی صورت میں عورت مہر یا کوئی اور مالی حق واپس کرتی ہے۔ لیکن اگر شوہر ظلم و زیادتی کا مرتکب ہو تو اسے معاوضہ لیے بغیر خلع دینا چاہیے۔ 

عدالت کا فیصلہ

اگر شوہر خلع دینے پر راضی نہ ہو تو عدالت شریعت کے مطابق جائزہ لے کر فیصلہ کر سکتی ہے۔ 

عدت

جیسے طلاق کی عدت ہوتی ہے۔ اسی طرح خلع کے بعد بھی عورت کو عدت گزارنا ہوتی ہے۔  

خلع کا قانونی طریقہ کار کیا ہے؟

فیملی لاء کے مطابق خلع لینے کا طریقہ یہ ہے کہ جب خاتون فیملی کورٹ میں خلع کا کیس فائل کرتی ہے۔ تو آٹھ  دن کے اندر شوہر کو نوٹس جاتا ہے۔ اس کے بعد شوہر کی طرف سے جواب دعویٰ آتا ہے۔ اس جواب دعویٰ کے بعد عدالت ایک تاریخ مقرر کرتی ہے۔ جس کو ابتدائی مصالحت کہتے ہیں۔  

اس مصالحت کی تاریخ پر شوہر اور بیوی دونوں کو بلایا جاتا ہے۔ عدالت ان کو موقع دیتی ہے کہ اگر جذبات میں آکر غصے میں یا کسی غلط فہمی کی بنیاد پر کیس فائل ہوگیا ہے۔ تو بات چیت اور مصالحت کرلیں۔ اور کیس ختم کر دیں۔ اگر ابتدائی مصلحت ناکام ہو جائے۔ یا عدالتی نوٹس ملنے کے باوجود مقدمہ کی سماعت کے لیے شوہر حاضر نہ ہو سکے۔ تو جج پر لازم ہوتا ہے کہ وہ فوری بیوی کے حق میں کارروائی کرکے خلع کی ڈگری جاری کر دے 

عدالتی خلع کی شرعی حیثیت

اسلامی فقہ کے مطابق، بیوی اگر شوہر کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارنے سے مطمئن نہ ہو۔ اور اس کا کوئی معقول جواز ہو، تو وہ خلع لے سکتی ہے۔ روایتی طور پر خلع میں شوہر کی رضامندی شامل ہوتی ہے۔ لیکن جدید عدالتی نظام میں اگر شوہر انکار کرے یا غیر حاضر رہے تو عدالت کو حق حاصل ہے کہ وہ خلع کی ڈگری جاری کرے۔ 

فقہائے کرام کی ایک بڑی تعداد عدالتی خلع کو جائز قرار دیتی ہے۔ خاص طور پر جب ازدواجی زندگی ناقابل برداشت ہو چکی ہو۔ تاہم، کچھ علماء کے نزدیک خلع صرف شوہر کی رضامندی سے ہوتی ہے۔ لیکن فیملی لاء کے مطابق عدالت شوہر کی غیر موجودگی میں بھی بیوی کو خلع کی ڈگری جاری کر سکتی ہے۔ اس لیے عدالتی خلع کی شرعی حیثیت پر مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ مگر عمومی طور پر اسے درست سمجھا جاتا ہے۔ جب شوہر ازدواجی حقوق ادا نہ کر رہا ہو یا بیوی کی جانب سے معقول وجوہات پیش کی جائیں۔ 

خلع کے احکام و مسائل

 اب خلع کی تعریف اور شرائط جان لئے ہیں تو اس کے احکامات اور متفرق مسائل سے آگاہی بھی نہایت ضروری ہے۔ 

طلاق کی اقسام میں خلع ایک خاص درجہ رکھتی ہے۔ جہاں عورت نکاح ختم کر سکتی ہے۔ خلع سے ایک طلاقِ بائن واقع ہوتی ہے۔ لیکن خلع کے بعد پہلے شوہر سے دوبارہ  نکاح کرنے کی اجازت ہے۔ اس کے لیے  کسی اور کے نکاح میں آنا اور اس کے ساتھ ہم بستری کرنا ضروری نہیں۔ البتہ  نئے مہر کے ساتھ، دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح کی تجدید کرنا ضروری ہے۔  

اور دوبارہ  نکاح ہونے کی صورت میں شوہر کو آئندہ دو طلاقوں کا اختیار ہوگا۔ اور یہ حکم اس وقت ہے جب کہ خلع سے پہلے شوہر نے دو طلاقیں نہ دی ہوں۔ بصورتِ دیگر خلع کے نتیجے میں مجموعی طور پر تین طلاقیں متصور ہوں گی۔ 

اگر عدت کی بات کی جائے تو جس عورت کو حیض آتا ہو۔ اس کے لیے خلع کی عدت تین حیض ہے۔ اگرچہ تین مہینے پورے ہونے سے پہلے مکمل ہوجائے۔ اور جس عورت کی ماہواری بند ہوجائے۔ اُس کی عدت مہینوں کے اعتبار سے تین ماہ میں پوری ہوگی۔ البتہ اگرعورت حاملہ ہوتو عدت بچے کی پیدائش پر ختم ہوگی۔ 

 خلع کی عدت  میں عورت کے لیے کسی شدید مجبوری کے بغیر گھر سے نکلنے، سفر کرنے یا خوشی غمی کے موقع پر کسی رشتہ دار کے گھر جانا جائز نہیں ہے۔ نیز عدت کے دوران عورت کے لیے کسی اور جگہ نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔  اور  نہ ہی کسی مرد کا عورت کو نکاح کا صراحتاً  پیغام دینا جائز ہے۔  

کیا خلع کے بعد بیوی کو نان و نفقہ ملے گا؟

خلع کے بعد بیوی کا نان و نفقہ ختم ہو جاتا ہے۔ البتہ اگر وہ حاملہ ہو تو عدت کے دوران خرچ دینا لازم ہے۔ 

یا شوہر زبردستی بیوی کو خلع پر مجبور کر سکتا ہے؟

نہیں۔ خلع عورت کا حق ہے۔ اور اگر شوہر زبردستی اس پر مجبور کرے۔ تو ایسی خلع باطل ہو سکتی ہے۔ 

بغیر کسی جواز کے عورت کا خلع لینا کیسا ہے؟

کسی جواز کے بغیر عورت کا خلع لینا ایک ناجائز امر ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کی ممانعت فرمائی ہے۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔

أَیُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلَاقًا مِنْ غَیْرِ بَأْسٍ، فَحَرَامٌ عَلَیْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّۃِ 

جس عورت نے بھی اپنے شوہر سے بغیر کسی معقول عذر اور مجبوری کے خلع حاصل کی، اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔ 

کیا خلع کے لیے شوہر کی رضامندی ضروری ہے؟

نہیں! خلع کے لیے شوہر کی رضا مندی ضروری نہیں۔ کیونکہ بیوی خلع کا مطالبہ اسی وقت کرتی ہے جب اسے شوہر سے اختلاف ہو۔ اور ازدواجی زندگی مزید نبھانا ممکن نہ رہے۔ خلع کی تعریف کے مطابق، یہ عورت کا شرعی حق ہے۔ جو اسے اس وقت دیا جاتا ہے۔ جب وہ کسی معقول وجہ سے شوہر سے علیحدگی چاہے۔ 

جس طرح شریعت نے مرد کو طلاق کا اختیار دیا ہے۔ اسی طرح عورت کو بھی خلع کا حق حاصل ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ طلاق کے معاملے میں مرد خود مختار ہوتا ہے۔ اور جب چاہے یہ حق استعمال کر سکتا ہے۔ جبکہ عورت کو خلع کے لیے عدالت سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ یہ اسلامی قانون کا ایک اہم پہلو ہے جو عورت کو ازدواجی بندھن سے نکلنے کا شرعی اور قانونی راستہ فراہم کرتا ہے۔ 

نتیجہ

خلع اسلامی تعلیمات میں عورت کو دیے گئے ایک اہم حقوق میں شامل ہے۔ جو اس کے تحفظ اور عزت کو یقینی بناتا ہے۔ خلع کی تعریف کے مطابق، یہ وہ شرعی حق ہے جس کے تحت عورت مخصوص حالات میں شوہر سے علیحدگی اختیار کر سکتی ہے۔ جب نکاح نبھانا ممکن نہ ہو۔ اور طلاق کے امکانات نہ ہوں۔ تو خلع ایک جائز شرعی راستہ ہے۔ تاہم، خلع کا فیصلہ جذباتی یا عجلت میں نہیں، بلکہ غور و فکر کے بعد کرنا چاہیے۔ اسلام مرد و عورت دونوں کو ازدواجی تعلقات میں برابری اور انصاف کی تلقین کرتا ہے۔ تاکہ معاشرتی استحکام قائم رہے۔

Simple Rishta

Simple Rishta

We are available from : 10:00 AM to 10:00 PM (Monday to Friday)

I will be back soon

Simple Rishta
Hey there 👋
How can we help you?
Messenger