انسان فطرتا حساس ہوتا ہے۔ اور وہ اپنی جذباتی وابستگی کسی کے ساتھ منسلک کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اکثر اوقات جذباتی وابستگی میں مسائل آنے والی وجہ سے وہ تناؤ کی کیفیت محسوس کرنے لگتی ہے۔ خاص کر اگر عورت کی بات ہو تو پاکستانی معاشرہ روایتی اقدار، خاندانی نظام، اور مذہبی و ثقافتی بندھنوں پر قائم ہے۔ یہاں عورت کو حیثیت اور عزت تو دی جاتی ہے۔ مگر اس کے باوجود اکثر اوقات وہ جذباتی سرد مہری کا شکار ہو جاتی ہے۔ اپنے جذبات یا وجود کو نظرانداز محسوس کرتی ہے۔
وہ خاموش رہتی ہے۔ برداشت کرتی ہے۔ اور اندر ہی اندر ٹوٹتی رہتی ہے۔ جذباتی سرد مہری کا شکار ہونا ایک نفسیاتی کیفیت ہے۔ جو عورت کی ذات، تعلقات، اور مجموعی شخصیت کو متاثر کرتی ہے۔ پاکستان میں شادیوں کی ناکامی کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے۔ جسے نظرانداز کیا جاتا ہے۔
اس بلاگ میں ہم اس رویے کی وجوہات، اس کے اثرات، اور ممکنہ حل کا تجزیہ کریں گے۔
جذباتی سرد مہری کیا ہے؟
اس کا مطلب ہے کہ کسی فرد کے جذبات، احساسات، اور ذہنی کیفیت کو مستقل طور پر نظر انداز کیا جائے۔ جب ایک عورت محسوس کرتی ہے کہ اس کے جذبات کی قدر نہیں کی جا رہی۔ یا اس کی بات سننے، سمجھنے اور تسلیم کرنے والا کوئی نہیں۔ تو وہ آہستہ آہستہ اپنے اندر ایک خالی پن محسوس کرنے لگتی ہے۔ یہی خالی پن جذباتی سرد مہری کی بنیاد بنتا ہے۔
جذباتی سرد مہری کی وجوہات
پاکستانی معاشرہ پدرانہ نظام پر مبنی ہے۔ جہاں مرد کو قیادت، فیصلہ سازی کا اختیار اور جذباتی استحقاق حاصل ہوتا ہے۔ عورت کو صبر، حیا، برداشت اور فرمانبرداری کا پیکر سمجھا جاتا ہے۔ یہی رویہ اسے اپنے جذبات کو دبانے، بات نہ کرنے، اور خود کو نظرانداز کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
عورت کو بچپن سے ہی سکھایا جاتا ہے کہ وہ اپنی باتوں کو دل میں رکھے۔ ماں بنے تو بچے پہلے، بیوی بنے تو شوہر پہلے، بہو بنے تو سسرال پہلے۔ اپنی ذات اور جذبات کا خیال کب رکھنا ہے۔ یہ کوئی نہیں سکھاتا۔
جذباتی تناؤ یا سرد مہری کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ عورتوں میں یہ عموماً اس احساس سے پیدا ہوتی ہے کہ اس کا شوہر ان سے محبت نہیں کرتا۔ یا اس کی شوہر کے سامنے کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں۔ وہ مسلسل عدم تحفظ اور بے یقینی کی کیفیت میں رہتی ہے۔
اس عدم تحفظ اور تناؤ کی کیفیت کو کم یا ختم کرنے کے لیے وہ بعض اوقات ایسے افعال سر انجام دیتی ہے جو میاں بیوی کا رشتہ ختم ہونے کا سبب بن جاتے ہیں۔
رشتوں میں یکطرفہ جذباتی سرمایہ کاری
پاکستانی عورت اکثر رشتوں میں خود کو مکمل طور پر کھپا دیتی ہے۔ اسے سکھایا جاتا ہے کہ شادی کا اصل مقصد شوہر کی خدمت، بچوں کی پرورش اور سسرال کی خوشنودی ہے۔ اپنی خوشی، آرام یا خواہشات اس کے لئے ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔
شوہر، بچے، سسرال، سب کے لیے وہ اپنی خواہشات، نیند، مشغلے، حتیٰ کہ اپنی صحت تک قربان کر دیتی ہے۔ بدلے میں اگر تعریف، توجہ یا جذباتی حمایت نہ ملے۔ تو وہ ایک ذہنی تھکن اور جذباتی خلا میں چلی جاتی ہے۔
ان حالات مں بیوی اور شوہر کے درمیان جذباتی فاصلہ بڑھنے لگتا ہے۔ اور ایک وقت آتا ہے جب بیوی کو لگتا ہے کہ وہ ایک گھر میں ہوتے ہوئے بھی تنہا ہے۔
جذبات کے اظہار کو کمزوری سمجھنا
ہمارے ہاں مرد ہو یا عورت، جذباتی اظہار کو کمزوری تصور کیا جاتا ہے۔ عورت اگر کسی تکلیف دہ روئیے کی شکایت کرے۔ یا تھکن کا اظہار کرے۔ تو اسے ناشکری یا ڈرامے بازی سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اندر ہی اندر اپنے جذبات کو دباتی رہتی ہے۔
سسرالی اور سماجی دباؤ
بعض اوقات سسرال میں بہو کی حیثیت یا اہمیت کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ وہ صرف کام کرنے والی، کھانا پکانے والی یا خدمت گزار سمجھی جاتی ہے۔ اسی طرح معاشرہ بھی عورت سے توقع کرتا ہے کہ وہ ہر حال میں صابر و شاکر بن کر رہے۔
عدمِ اعتماد اور تنقید
اکثر عورتیں جب اپنی رائے یا احساسات کا اظہار کرتی ہیں۔ تو انہیں تنقید یا طنز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ “تمہیں ہر وقت شکایت ہی رہتی ہے” یا “تم کبھی خوش نہیں ہوتی” جیسے جملے ان کے اعتماد کو توڑ دیتے ہیں۔ ان کے جذبات اور احساسات کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ جذباتی سرد مہری یا تناؤ کا شکار ہو جاتی ہے۔
ان حالات میں جب شوہر کی توجہ، محبت اور شراکت ختم ہونے لگتی ہے۔ تو بیوی کے دل میں ایک خلا جنم لیتا ہے۔ وہ خلا، جو کبھی ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنے، مسکراہٹوں اور چھوٹے چھوٹے خیال رکھنے سے بھرا رہتا تھا۔ اب ویران ہو جاتا ہے۔
ایسے میں وہ عورت اُس سکون کو کسی اور شکل میں تلاش کرنے لگتی ہے۔ کبھی سوشل میڈیا کی دنیا میں، کبھی ڈراموں کے خیالی کرداروں میں، اور کبھی کسی ایسے شخص کی باتوں میں جو صرف سُن لے۔ اور کوئی اعتراض نہ کرے۔
شدید صورت میں یہی جذباتی لاپرواہی اسے ڈپریشن، انزائٹی، یا پھر ایک بند گلی کی طرح طلاق جیسے فیصلے کی دہلیز پر لا کھڑا کرتی ہے۔ جہاں سے واپس لوٹنا مشکل ہو جاتا ہے۔
اثرات
یہ جذباتی محرومی اگر وقت پر نہ سمجھی جائے تو رفتہ رفتہ بیوی کے اندر اداسی کا بوجھ بڑھنے لگتا ہے۔
نفسیاتی مسائل
بیوی کو شوہر سے جو سب سے زیادہ چیز چاہیے۔ وہ ہے محبت، توجہ اور احساس۔ مگر جب اسے یہ نہ ملے، تو وہ اندر ہی اندر ٹوٹنے لگتی ہے۔ اس میں ڈپریشن، تنہائی، خود اعتمادی میں کمی، یا کبھی کبھار خودکشی تک کی سوچ پیدا ہو سکتی ہے۔
رشتوں میں دوری
جب عورت جذباتی طور پر کٹی ہوئی محسوس کرتی ہے تو وہ شوہر، بچوں یا دیگر رشتوں سے دُور ہوتی جاتی ہے۔
جسمانی صحت پر اثر
ذہنی دباؤ کا جسم پر بھی اثر ہوتا ہے، جیسے ہائی بلڈ پریشر، نیند کی خرابی، تھکن اور چڑچڑا پن پیدا ہو جانا۔ جس کا اثر اس سے منسلک دوسرے رشتوں پر بھی ہوتا ہے۔
اولاد پر منفی اثر
ایک جذباتی طور پر دکھی ماں غیرمحسوس طریقے سے اپنی اولاد میں بھی منفی جذبات منتقل کر رہی ہوتی ہے۔
حل اور سفارشات
ان حالات میں بیوی کو کیا کرنا چاہیے؟ اسے چاہیے کہ مرد کے ساتھ ہمیشہ مثبت رویہ کے ساتھ پیش آئے۔ تاکہ وہ اس کے مسائل اور مشکلات سے اچھی طرح واقف ہو سکے۔ اور ان میں کوئی ابہام نہ رہے۔
مزید یہ کہ چپ رہنے سے کچھ نہیں بدلتا۔ بیوی کو واضح الفاظ میں شوہر کو بتانا چاہئیے کہ وہ کیسا محسوس کر رہی ہے۔ اس کے لئے اشارے کنایوں کا سہارا نہ لے۔ مرد اشاروں کی زبان نہیں سمجھتا۔
کام کا دباؤ، مالی مسائل، یا سوشل میڈیا کی لت اکثر شوہروں کو جذباتی طور پر بیویوں سے دور کر دیتی ہے۔ لیکن کبھی اگر شوہر بیوی سے کچھ کہنا چاہے تو وہ بدگمان ہو کر سنتی نہیں۔ اس لئے عورت کو چاہئیے کہ جب بھی شوہر کو اس کی ضرورت ہو اس کے دل کی بات سنے۔
عورت کے لئے ضروری ہے کہ اپنے گھر کی ترتیب، صفائی ستھرائی اور شوہر کے سامنے اچھی حالت میں رہے۔ تاکہ اسے زیادہ رغبت ہو۔
اگر میاں بیوی آپس میں ایک دوسرے سے دوری محسوس کرتے ہوں تو دونوں میں سے کسی کو پہل کرکے اس کیفیت کو ختم کرنا چاہیے، آپس میں جذباتی کیفیت کو بحال کرنا چاہیے۔
محبت صرف محبت کے الفاظ کہنے سے نہیں، بلکہ عمل سے ثابت کرنے سے زندہ رہتی ہے۔ اگر آپ کی رشتے میں دوری اور لاپرواہی آ رہی ہے۔ تو ابھی قدم اٹھائیں۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔
جذباتی تعلیم اور آگاہی
ہمارے تعلیمی نظام اور معاشرتی مکالمے میں جذباتی ذہانت کا فروغ ضروری ہے۔ بچوں کو شروع سے ہی سکھایا جائے کہ جذبات کا اظہار جرم نہیں بلکہ ایک فطری عمل ہے۔
مردوں کی تربیت
دوسری باتوں کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ مرد کو سکھایا جائے۔ کہ عورت صرف گھر سنبھالنے والی مشین نہیں۔ بلکہ ایک حساس انسان بھی ہے۔ اس کی بات سننا، اس کی تھکن کو محسوس کرنا، اس کی قربانیوں کو سراہنا ضروری ہے۔
ایک مثالی شوہر وہ ہوتا ہے جو نہ صرف اپنی بیوی کی جسمانی ضروریات کا خیال رکھے۔ بلکہ اس کے جذبات، احساسات اور ذہنی کیفیت کو بھی اہمیت دے
مشاورت اور تھراپی
خواتین کو چاہیے کہ وہ خود کو تنہا نہ سمجھیں۔ آج کے دور میں آن لائن تھراپی، خواتین سپورٹ گروپس اور ذہنی صحت کے ماہرین موجود ہیں۔ جن سے مدد لینا کمزوری نہیں، عقلمندی ہے۔ اگرچہ ہمارے معاشرے میں یہ عام نہیں۔ لیکن اس کی حوصلہ افزائی ضروری ہے۔
عورت کا خود اپنی اہمیت تسلیم کرنا
جذباتی سرد مہری کے خاتمے کا سب سے بڑا قدم عورت کا خود سے محبت کرنا ہے۔ اپنی پسند کے مطابق وقت گزارنا، مشغلے اپنانا، دوستوں سے بات کرنا۔ اور خود کو جذباتی طور پر اہم سمجھنا نہایت ضروری ہے۔
اختتامی کلمات
عورت خواہ وہ کسی معاشرے کی ہو۔ محبت کرنے والی، قربانی دینے والی، اور ہر مشکل میں ڈٹ کر کھڑی ہونے والی ہستی ہے۔ مگر اسے جذباتی طور پر نظرانداز کرنا، اس کے احساسات کو غیر اہم سمجھنا نہ صرف اس کی ذات بلکہ پورے خاندان، نسل اور معاشرے پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔
وقت آ چکا ہے کہ ہم عورت کے جذبات کی قدر کریں۔ انہیں سنیں، سمجھیں اور سراہیں۔ بیوی کو صرف کپڑوں، کھانوں یا بچوں تک محدود نہ کریں۔ بلکہ اُس کے جذبات کو بھی وہی اہمیت دیں جو ایک انسان کی شخصیت کو مکمل بناتی ہے۔
محبت صرف لفظ نہیں، یہ عمل مانگتی ہے۔ اور جب یہ عمل غائب ہو تو بیوی صرف تنہا نہیں ہوتی۔ بلکہ اندر سے ٹوٹنے لگتی ہے۔ ایک جذباتی طور پر محفوظ، خوش اور مطمئن عورت نہ صرف گھر کے ماحول کو بہتر بناتی ہے۔ بلکہ کامیاب ازدواجی زندگی کی بنیاد بھی رکھتی ہے۔
کیونکہ جب بیوی کو سمجھا جائے۔ سنا جائے اور اس کی عزت کی جائے۔ تب ہی ایک رشتہ حقیقی معنوں میں مضبوط، پُرسکون اور دیرپا بن سکتا ہے۔ اور یہی ایک خوشحال اور متوازن معاشرے کی اصل بنیاد ہے۔